،راہ حیات کی تلخیاں پیتے پیتے   اے محسن بہت کڑوے ہو چکے ہیں ہم۔

بہت خیال رکھتے ہیں  وہ اپنے دل کا اِدھر نہیں لگتا تو اُدھر لگا لیتے ہیں۔۔

بھول جانا اسے مشکل تو  ہے لیکن کام آسان بھی اب ہم سے کہاں ہوتے ہیں

خط میں لکھے ہوئے القاب سبھی جھوٹے تھے اس نے بس طنز میں لکھا تھا میری جان ہو تم

مجھے تصویر اپنی دوسری دے دو کہ پرانی آنسوؤں میں دھل چکی ہے

‏اب بے وجہ ، بے سبب دن کو رات نہیں کرتا ‏فُرصت ملے بھی تو کسی سے بات نہیں کرتا

تمھارے بعد فقط اتنا ھی ھوا ھے. کہ اب میں کھڑکی سے بارش دیکھتا ھوں..‏

کون کہتا ہے تیری یاد میں پاگل ہوں میں آج کچھ وقت نکالا میں نے کنگھی کرلی

اب کے بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں ملیں جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں۔

جون غم کے ہجوم سے نکلے اور جنازہ بھی دھوم سے نکلے جنازے میں تھا یہ شور حزیں آج وہ مر گیا جو تھا ہی نہیں

لہو روتے نہ اگر ہم دم ِ رخصت یاراں کیا عجب تھا جو کوئی اور تماشا کرتے چلو اچھا ہے کہ وہ بھی نہیں نزدیک اپنے وہ جو ہوتا تو اسے بھی نہ گوارا کرتے

کیا ہیں وہ اپنی وعدہ گاہیں ہر چیز بدل گئی یہاں تو میں شہر وفا سے آرہا ہوں کوئی بھی نہیں ملا وہاں تو

خواب تو پارہ پارہ ہو گیا ہے مفت میں استخارا ہوگیا ہے تھا میسر تو دوسروں کا تھا جاتے جاتے ہمارا ہو گیا ہے ہم ہوئے کیا ذرا خفا تم سے جس کو دیکھو تمھارا ہو گیا ہے اک طرف سے میں رد کیا گیا ہوں اک طرف سے اشارہ ہوگیا ہے

پھر یوں ہوا کہ لذتِ دیدار چھن گئی اک شخص میری آنکھ کے سب خواب لے گیا پھر یوں ہوا کہ درد میں ملتا رہا سکوں اک شخص زندگی کے حسیں باب لے گیا تبدیل کرگیا مرے جینے کے ڈھنگ سب اذنِ وفا کے جرم میں وہ تاب لے گیا پھر وسعتیں ملیں مجھے تنہائیوں کے سنگ اک شخص چھین کر سبھی احباب لے گیا

،راہ حیات کی تلخیاں پیتے پیتے   اے محسن بہت کڑوے ہو چکے ہیں ہم۔