پھر یوں ہوا کہ لذتِ دیدار چھن گئی
اک شخص میری آنکھ کے سب خواب لے گیا
پھر یوں ہوا کہ درد میں ملتا رہا سکوں
اک شخص زندگی کے حسیں باب لے گیا
تبدیل کرگیا مرے جینے کے ڈھنگ سب
اذنِ وفا کے جرم میں وہ تاب لے گیا
پھر وسعتیں ملیں مجھے تنہائیوں کے سنگ
اک شخص چھین کر سبھی احباب لے گیا